Orhan

Add To collaction

حدت عشق

حدت عشق
از قلم حبہ شیخ
قسط نمبر11

شاہ ذل سارہ کو گھر چھوڑ کر آفس کے لیے روانہ ہو گیا۔ سارہ گھر میں داخل ہوئی تو نا مناسب ہلچل مچی ہوئی تھی
سارہ نے اپنی مما کو ڈھونڈنے کے لیے نظر دوڑائی تو وہ اسے ملازمہ سے بات کرتے ہوئے نظر آئی
سارہ جلدی سے پہنچی اور سلام کیا
اسلام علیکم! مما۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ نے مودبانہ انداز میں سلام کیا جس کا انہوں نے خوشدلی سے جواب دیا۔۔۔۔۔۔۔
واسلام! 
آ گئی میری لاڈلی بیٹی۔۔۔ انہوں نے ماتھے کا بوسہ لیا اور ملازمہ کو کام سمجھاتی سارہ کے ساتھ چلنے لگی
مما آج گھر میں اتنی گہما گہمی کیوں ہے سارہ نے کنفیوز ہوتے ہوئے اپنی ماں سے پوچھا۔۔۔
جی بیٹے آج آپ کے بابا کے فرینڈ ملنے آ رہے ہیں
اور وہ اپنے بیٹے کا ہاتھ آپ کے لیے مانگا ہے میں اور آپکے بابا تو راضی ہے ارحم اور فائز آج مل لے گے آپ پر بھی کوئی پریشر نہیں ہے آپکے بابا نے کہا ہے جیسا آپ کہیں گی وہی ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔
اور سارہ تو بت  بنی کھڑی رہی ذہن میں ایک بات چل رہی تھی
کہ آپکا ہاتھ مانگنے آ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ روبوٹ کی طرح چلتی ہوئی کمرے میں آئی اور گرنے کے انداز میں بیڈ پر لیٹ گئی
      تو کیا شاہ ذل بھائی ٹھیک کہہ رہے تھے وہ لوگ سچ میں مجھے دیکھنے آ رہے ہیں ہائے میں کیا کروں اب اور سوچتے سوچتے کب وہ نیند کی وادیوں میں سو گئی پتا بھی نہیں چلا
شاہ ذل قریبا 7 بجے گھر آیا اور 15 منٹ تک فریش ہوا اور 15 منٹ تک سارہ کے کمرے کے باہر کھڑا اور خود کو کمپوز کرتے ہوئے کمرے میں داخل ہوا ۔۔۔۔
سارہ جو ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھوئے کھوئے بال بنانے میں مصروف تھی
شاہ ذل کو اپنے کمرے میں دیکھ کر سارہ حقیقتاً پریشان ہوئی تھی مگر خود کو کمپوز کرتے ہوئے نارمل انداز میں بولی۔۔۔
شاہ ذل بھائی آپ یہاں؟؟
شاہ ذل چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتا اس تک پہنچا اور ایک جھٹکے سے اسے اپنے قریب کیا
سارہ تو اس کے ہر انداز سے بوکھلا رہی تھی
ی۔یہ کککیا کر رہیں ہیں اپ۔۔۔۔۔۔۔۔
سارہ نے اٹک اٹک اسے دھکیلتے ہوئے کہنے لگی
یار میں کچھ نہیں کر رہا ۔تم بتاؤ آج تم اپنی مما بابا کو انکارا کرو گی نہ 
وہ جیسے خود سے زیادہ اسے یقین سے کہہ رہا ہو
اور ہاں کوئی ضرورت نہیں ہے ان کے سامنے جانے کی
پر کیوں کروں میں انکار سارہ جیسے اس سے کچھ سنںے کی مطمنی ہو
some time there is no need to express our feelings through our voice send
      Because........
Eyes talk...........
And as well as sometime good heart is enough to understand hidden feelings without voice......   
اور سارہ یک ٹک اس کے الفاظوں پر اٹکی ہوئی تھی
یار پلیز اگر مما بابا پوچھے تو پلیزززززززززز انکار کر دینا 
وہ جیسے اس سے بات منوانے کے لیے کھڑا ہو
شاہ ذل جو کسی کے سامنے نہیں جھکتا تھا آج ایک لڑکی کے سامنے جھک رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہ ذل بھائی آپ یہاں سے جائے کوئی دیکھ لے گا۔۔۔۔۔۔۔
سارہ بات بدلتے ہوئے کہا اور شاہ ذل اس کے بات بدلنے پر بدمزہ ہوا۔۔۔  ۔۔۔۔
میں تمہیں کیا کہہ رہا ہوں اور تمہیں کسی کے آنے کی پڑی ہوئی ہے۔۔۔۔۔۔
شاہذل دبے دبے غصے بھرے لہجے میں  کہا 
اور سارہ اس کے اس انداز پر اسہم گئی اور آنکھوں سی ایک موتی پھسلا جو شاہ ذل کے ہاتھ پر گرا
اور شاہ ذل کا غصہ جھاگ کی طرح ہوا ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شاہذل نے اس کے آنسو صاف کیے اور اسے خود میں بھینچ لیا نا چاہتے ہوئے بھی اس کی آنکھوں سے آنسوں نکل گئے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔   
اور بےبسی سے بولا ۔۔۔
انتسارہ شاہ مجھے تم سے محبت ہے میں نہیں رہ سکتا 
یار پلیزززز سمجھو 
وہ لمبا چوڑا مرد اپنا سب کچھ عیاں کرنے کے در پر تھا 
اور سارہ اس کے اتنے قریب کھڑی تھی اس کا دل پسلیاں توڑ کے باہر آنے کو کر رہا تھا 
شاہذل جو ایک جذب کے علم میں تھا سارہ نے ایک جھٹکے سے دور کیا اور باتھروم میں جاکر بند ہو گئی اور اپنی سانسوں کو ہموار کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔
اور شاہذل جو اس افتاد کے لیے تیار نہیں تھا دور ہوا اور غصے سے دروازے کو ٹھوکر مارتا وہاں سے نکلتا چلا گیا
قریباً رات کے 9 بجے ہمدانی صاحب کی فیملی اور شاہ فیملی کے افراد خوشگپیوں میں مصروف تھے 
شاہذل لاونج میں داخل کیا اورسب کو سلام کر کے الگ صوفے پر جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔
فائز جو مہمانوں سے گپیوں میں مصروف تھا شازل کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔
آوے سالے تیرے منہ پر 12 کیوں بج رہے ہیں ۔۔۔۔
جبکہ گھڑی تو 9 بجا رہی ہے فائز نے اس سے مزاق کرتے ہوئے اس کے کندھے پر چپت لگائی ۔۔۔۔۔۔
کیا ہے تجھے نہ پریشان کر پہلے ہی تیری بہن نے ناک میں دم کیا ہوا ہے محترمہ سے کوئی بات کرو تو کیوں ضرور کرنا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔
شاہذل نے چڑتے ہوئے ڈپٹا۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اچھا چل نہیں یہ بتا کیا بات ہوئی سارہ سے فائز نے سیریس ہوتے ہوئے پوچھا۔۔۔ 
ہاں ہوئئ ہے بات کہا ہے میں نے منع کر دے پر اس کے دماغ میں بیٹھتی نہیں ہے بات دیکھتے ہیں کیا کہیتی ہے 
شاہذل نے فائز کو سڑے سڑے منہ بنا کر جواب دیا۔۔۔۔۔
تھوڑی دیر بعد وہ حسینہ سفید کلر کے لونگ فراک اور چوڑی دور پاجامہ پہنے کندھے پر اورنج کلر کا دوپٹا رکھے اور ہونٹوں پر گلوز لگائے بے حد حسین لگ رہی تھی
شاہ ذل ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا اور فائز اسے سارہ کو ایسا دیکھتے ہوئے مسکرانے لگا 
فائز نے اس کے سامنے چٹکی بجائی اور چھیڑتے ہوئے بولا
جان من خیال سے سب ہیں ۔۔۔۔
شاہذل کا سکتہ ٹوٹا اور اسے ایک زبردست قسم سی گھوری سے نوازتا ہوا بولا
بکواس نہ کر یہ دیکھ رحم کھا لے مجھ پر کچھ دیر زبان کو تالا لگا لے۔۔۔۔۔
اور صوفے سے ٹیک لگائے ہاتھ جوڑتے ہوئے بولا۔
سارہ باربار کن انکھیوں سے شاہ ذل کی طرف دیکھ رہی تھی جو کہ شاہ ذل نے تو نہیں فائز نے نوٹ کیا 
سارہ بیٹا ماشاءاللہ بہت پیاری لگ رہی ہو مسسز ہمدانی نے دل سے تعریف کی
اور سارہ بس شکریہ ہی کہہ پائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور ہادی ہمدانی صاحب کا بیٹا ٹکٹکی باندھے اسے ہی دیکھ رہا تھا جو شاہ ذل کو کھٹک رہا تھا
شاہ ذل ہاتھ کی مٹھیاں بھینچے اپنے غصے کو ضبط کرنے کی کوشش کر رہا تھا  اور سارہ اسے غصے میں دیکھ بہت گھبرا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ یار میں چاہتا ہوں کہ دونوں بچے اکیلے میں بات کر لیں تاکہ ایک دوسرےکو جان سکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمدانی صاحب نے حمزہ شاہ کو دیکھتے ہوئے کہا
اور حمزہ شاہ کے بولنے سے پہلے شاہ ذل درمیان میں بول پڑا
انکل اتنی بھی جلدی کیا ہے رشتہ ابھی confirm نہیں ہوا 
شاہذل نے بے چین ہوتے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔
اور سارہ کو آنکھوں سے نہ میں التجا کی سارہ جو اس کی طرف دیکھ رہی تھی نظروں کا تصادم ہوا اور جلدی سے جھکا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔
ہادی کو شاہ ذل کا بولنا نہ گزیر لگا مگر ضبط کرتے ہوئے چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔۔۔
کوئی بات نہیں شاہ صاحب confirm نہیں ہوا تو ابھی کر لیتے ہیں۔۔۔   
باقی سب تو ہادی کے بات پر ہنسنے لگ گئے جبکہ شاہذل بے چینی سے پہلو بدل کے رہ گیا۔۔۔۔۔ 
سارہ بیٹے آپ بتاؤ اپکو کوئی اعتراض تو نہیں اس رشتے سے
حمزہ شاہ نے سارہ سے استفسار کیا۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹے آپکے بابا کچھ پوچھ رہے ہیں بولو 
جی کچھ کہا سارہ نے سوالیہ نظروں سے دیکھا ۔۔۔
ہم پوچھ رہے ہیں اپکو اس رشتہ سے اعتراض تو نہیں ہے۔۔۔۔
وہ شاہ ذل کی نظریں مسلسل خود پر محسوس کر رہی تھی۔۔۔ 
بابا ابھی تو میری پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔      
سارہ کی بات پوری ہونے سے پہلے مسز ہمدانی بول پڑی
بیٹا ابھی صرف رشتہ طہ کرے گے شادی آپکی اسٹڈی کے بعد ہوگی۔۔۔۔
اور سارہ کو تو اس کے بعد چپ ہی لگ گئی۔۔۔
جبکہ شاہ ذل اس کے چپ ہونے پر پہلو بدل کر رہ گیا۔۔۔
بولو ۔۔۔۔۔۔۔۔
حمزہ شاہ نے اس کے گرد حصار باندھتے ہوئے ایک بار پھر تصدیق کیا۔۔۔۔۔۔
جیسا آپ کو مناسب لگے بابا اور یہ کہتے ہی جلدی سے وہ اپنے کمرے کی طرف بھاگ گئی جبکہ شاہ ذل کتنی ہی دیر اس کے الفاظوں پر غور کرتا رہا
شاہ ذل غصے سے اٹھا اور سارہ کے کمرے کی طرف چل دیا اس کا یہاں سے جانا فائز کے علاؤہ کوئی نہیں سمجھ سکتا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔

   1
0 Comments